Monday 3 June 2024

کیا سنے کوئی زبانی میری

 کیا سُنے کوئی زبانی میری 

اور پھر وہ بھی کہانی میری 

شہر صحرا کی طرح لگتا ہے 

رائیگاں نقل مکانی میری 

ایک چہرہ مِرے چہرے سے الگ 

ایک تصویر پرانی میری 

میں کہ دریا تھا جو اب ساکت ہوں 

کھو گئی مجھ میں روانی میری 

رات شبنم میں بہت بھیگا تھا 

دیکھ اب شعلہ فشانی میری 


عبید صدیقی 

No comments:

Post a Comment