Monday 3 June 2024

جب ہوا کے شہر میں داخل ہوئے

 جب ہوا کے شہر میں داخل ہوئے 

خاک و خوں کے قہر میں داخل ہوئے 

ایک قطرہ بھی نہیں تھا دستیاب 

زیست کی جب نہر میں داخل ہوئے 

آندھیاں، طوفان، بارش، زلزلے 

آسماں کے قہر میں داخل ہوئے 

مِل رہا ہے زہر ہی ہر ایک سے

کیا جہانِ زہر میں داخل ہوئے 

اکثریت آج بھی انجان ہے 

خُلد سے کیوں دہر میں داخل ہوئے 

چند سانسوں کو حقیقت جان کر

اک فریبِ سحر میں داخل ہوئے 

غم چُھپانے کی جگہ نہ جب مِلی 

شاعری کی بحر میں داخل ہوئے 

عمر گزری پر سحر نہ ہو سکی

رات پہلے پہر میں داخل ہوئے 

آج تک اُبھرے نہیں باطن کہیں 

درد کی جو لہر میں داخل ہوئے 


باطن رجانوی

No comments:

Post a Comment