سر بہ نیزہ پکارتا ہے عشق
میرے اندر وہ کربلا ہے عشق
کیسی وحشت ہے، بے قراری ہے
کس قیامت سے ہو گیا ہے عشق
ختم ہو گا نہ ختم کرنے سے
وہ جبلت ہے، خلقیہ ہے عشق
شوق ہے، آرزو ہے، طوفاں ہے
یعنی سرتاپا جامعہ ہے عشق
کتنا مرمر کے جی رہا ہوں میں
کتنا جاں کاہ سانحہ ہے عشق
کوہِ آتش فشاں ہوں میں خالد
مجھ میں اب اس طرح بپا ہے عشق
خالد مبشر
No comments:
Post a Comment