مرے مزاج کی تلخی ہی مجھ پہ کافی ہے
تمہارے درد کی نعمت تو پھر اضافی ہے
خدا خدا ہے مسلط نہ کر کسی پہ خدا
وہ بات رہنے دے جو بات اختلافی ہے
میں روشنی کے تعاقب میں ہوں اندھیرے میں
دیا جلا کے بجھانا بھی تو معافی ہے
وہاں پہ نیند کی کھڑکی کھلی نہیں ہو گی
یہاں پہ خواب کا ہونا بھی انحرافی ہے
میں ایک سجدہ مصلّے پہ چھوڑ آئی ہوں
مِرے گناہوں کی یہ آخری تلافی ہے
تو اپنے غم میں کوئی کھوٹ کر کے آیا ہے
جو وزن ہے میرے اشکوں کا وہ اضافی ہے
میں خوش گمان ہوں مہوش اسے بھروسہ ہے
یہ بدگمانی مِری ذات کی منافی ہے
مہوش احسن لاشاری
No comments:
Post a Comment