Tuesday 4 June 2024

مفلس کا مال کھانے کو بدکار آ گئے

 صورت بنا کے ایسی کہ حقدار آ گئے

مفلِس کا مال کھانے کو بدکار آ گئے

میرے حسِین ملک پہ قابِض کی آڑ میں

سوچوں کہاں کہاں سے یاں اغیار آ گئے

ہاتھوں میں جن کے ہونی تھی تختی قلم دوات

صد حیف اُن کے ہاتھوں میں ہتھیار آ گئے

دس بارہ سال عمر سے باون پہ پہنچ کر

جیون میں دوست زخموں کے انبار آ گئے

ہر دو قدم پہ بار ہا کھانے سے ٹھوکریں 

ہم کو بھی یار جینے کے اطوار آ گئے

اُس پار سانس لینا بھی ہونے لگا محال 

سب چھوڑ چھاڑ کے اسے ہم پار آ گئے

ہاتھوں پہ رکھ کے ہاتھ یہی سوچتا ہوں میں 

قیصر بھلے تھے دن مِرے بے کار آ گئے


قیصر عمران سیالوی

No comments:

Post a Comment