صورت بنا کے ایسی کہ حقدار آ گئے
مفلِس کا مال کھانے کو بدکار آ گئے
میرے حسِین ملک پہ قابِض کی آڑ میں
سوچوں کہاں کہاں سے یاں اغیار آ گئے
ہاتھوں میں جن کے ہونی تھی تختی قلم دوات
صد حیف اُن کے ہاتھوں میں ہتھیار آ گئے
دس بارہ سال عمر سے باون پہ پہنچ کر
جیون میں دوست زخموں کے انبار آ گئے
ہر دو قدم پہ بار ہا کھانے سے ٹھوکریں
ہم کو بھی یار جینے کے اطوار آ گئے
اُس پار سانس لینا بھی ہونے لگا محال
سب چھوڑ چھاڑ کے اسے ہم پار آ گئے
ہاتھوں پہ رکھ کے ہاتھ یہی سوچتا ہوں میں
قیصر بھلے تھے دن مِرے بے کار آ گئے
قیصر عمران سیالوی
No comments:
Post a Comment