Tuesday 4 June 2024

نفس نفس اضطراب میں تھا

 نفس نفس اضطراب میں تھا

میں حلقۂ صد عتاب میں تھا

سبھی نظارے نظر میں گم تھے

کہ سارا منظر حجاب میں تھا

پڑھا تو کچھ بھی نہ ہاتھ آیا

لکھا بہت کچھ کتاب میں تھا

لہو کی آہٹ پہ چونک اٹھا

وہ مدتوں جیسے خواب میں تھا

دلوں میں روشن نئی کہانی

پرانا قصہ کتاب میں تھا

بس اک ہنر تہہ بہ تہہ منور

بس اک سخن انتخاب میں تھا

میں اس کی خوشبو میں گم تھا اختر

وہ میرے غم کے حساب میں تھا


سلطان اختر

No comments:

Post a Comment