Thursday 6 June 2024

دو طبقے ہیں دونوں میں اک جنگ ازل سے جاری ہے

 کڑواہٹ


دو طبقے ہیں 

دونوں میں اک جنگ ازل سے جاری ہے 

ایک طبقے پر رحمت ہے، خوشحالی ہے 

ایک طبقے پر خوف مُسلسل طاری ہے 

ایک طبقہ جو حاکِم ہے اور ظالم ہے 

اس طبقے کی اُنگلی تھامے

نیتن یاہو جیسے قاتل 

خُون میں لت پت

مظلوموں کی کھوپڑیوں کی پگڈنڈی پر

رقص کُناں ہیں 

چند سرمایہ دار جو گِدھ ہیں

نوچ رہے ہیں

مزدوروں کی خُوشحالی کو 

ان کے ایجنڈے میں شامل ہے 

معصوموں اور مظلوموں کے

 لہو کو پینا لازم ہے

اس طبقے کی ایک نسل جب

ایک نسل کی ساری اُجرت کھا جاتی ہے 

اس طبقے کو بِن محنت

 ہر چیز میسر آ جاتی ہے 

اس کا سِکہ جب بازار میں اُچھلے تو

سب قانون کے ماہر وارث

اور أئین کے بازی گر 

اس کی جاگیروں کے رکھوالے

کھُوجی کُتے بن جاتے ہیں 

اِن کُتوں کا صرف عقیدہ دولت ہے 

بس دولت ہے 

اور دولت کی تقسیم غلط ہے 

سچ میں یہ ترمیم غلط ہے 

دو طبقے ہیں 

دونوں میں ایک جنگ ازل سے جاری ہے 

اک طبقے پر رحمت ہے خوشحالی ہے 

ایک طبقے پر خوف مُسلسل طاری ہے 

اک طبقہ مظلوم ہے جو محکوم بھی ہے

اِس طبقے کی

 کُملائی سی دھرتی ماں پر 

بُھوک افلاس اور محرومی کی 

ساری فصلیں اُگتی ہیں 

خُودکُشی کی رُت نے ڈیرے ڈالے ہیں

 کلی کلی ہر غُنچے پر 

نفرت کی کالی راتوں کے سائے ہیں 

مسخ شدہ تاریخ لیے 

اس طبقے سے کوسوں دور

ہر اک سُکھ ہے 

اس کی بنجر قسمت میں تو 

دُکھ ہی دُکھ ہے 

اس کے دُکھوں کو بانٹنے والا

ہر اک عیسیٰ 

دار پہ لٹکا 

جُھول رہا ہے 

اس کی پیاس بُجھانے کو 

جبر کے ساگر چھلک رہے ہیں 

اس کی بُھوک مٹانے کو بس

ایک فصل ہے اُمیدوں کی

سخت کڑکتی دُھوپ میں جلتا

وقت کی بے رحمی میں پلتا

اس کا ہر اک بُوڑھا بچہ

کڑوی محنت کی چکّی میں ہر پل

پِستے پِستے

بیماری میں جنگل میں جب کھو جاتا ہے 

ابدی نیند یہ سو جاتا ہے 

اس طبقے کے صاف شفاف سے چہرے پر 

صدیوں سے 

جبر و اِستحصال کی یارو

دھُول جمی ہے 

مایوسی اور مجبوری کا خوف کھڑا ہے ذہنوں میں 

اس پر قاسم

آزادی اور خوشحالی کا 

ہر در بند ہے 

رحمت عدل کرم پر اب تک

پابندی ہے

ہر عادل، ہر حاکم آمر

ان سے خفا ہے 

اِن کی گُم سُم

زندہ لاشوں کی

خاموشی میں 

درد کا ایک تسلسُل ہے 

اک چیخ مُسلسل ہے

دو طبقے ہیں 

دونوں میں اک جنگ ازل سے جاری ہے 

اک طبقے پر رحمت ہے خوشحالی ہے 

اک طبقے پر خوف مُسلسل طاری ہے 


قاسم خیال

No comments:

Post a Comment