Thursday 6 June 2024

ہم بے گناہ جان سے مارے گئے تو کیا

 سب فیصلے خلاف ہمارے گئے تو کیا

ہم بے گناہ جان سے مارے گئے تو کیا

تم بے وفا ہو کون یہاں جانتا نہیں

تم بیوفا نہ کہہ کے پکارے گئے تو کیا

پانی تمام صحن کا جب پی گئی زمین

کاغذ کے اب سفینے اتارے گئے تو کیا

یہ کم نہیں کہ یاد ہی رکھا گیا ہمیں

 محفل میں سب کے بعد پکارے گئے تو کیا

میں بھی شکار عشق ہی کے سانحے کا ہوں

اس حادثے میں آپ بھی مارے گئے تو کیا

رونق نہ کم ہوئی کبھی اس بزم ناز کی

کچھ کہکشاں سے ٹوٹ کے تارے گئے تو کیا

خطرے میں آج بھی ہے یقیں کا مرے وجود

کچھ سانپ آستین کے مارے گئے تو کیا

جنت نہیں ملی ہے یہی جانتے ہیں ہم

جنت کے سامنے سے گزارے گئے تو کیا


شمیم دانش

No comments:

Post a Comment