سب فیصلے خلاف ہمارے گئے تو کیا
ہم بے گناہ جان سے مارے گئے تو کیا
تم بے وفا ہو کون یہاں جانتا نہیں
تم بیوفا نہ کہہ کے پکارے گئے تو کیا
پانی تمام صحن کا جب پی گئی زمین
کاغذ کے اب سفینے اتارے گئے تو کیا
یہ کم نہیں کہ یاد ہی رکھا گیا ہمیں
محفل میں سب کے بعد پکارے گئے تو کیا
میں بھی شکار عشق ہی کے سانحے کا ہوں
اس حادثے میں آپ بھی مارے گئے تو کیا
رونق نہ کم ہوئی کبھی اس بزم ناز کی
کچھ کہکشاں سے ٹوٹ کے تارے گئے تو کیا
خطرے میں آج بھی ہے یقیں کا مرے وجود
کچھ سانپ آستین کے مارے گئے تو کیا
جنت نہیں ملی ہے یہی جانتے ہیں ہم
جنت کے سامنے سے گزارے گئے تو کیا
شمیم دانش
No comments:
Post a Comment