Thursday 6 June 2024

ساتھ وحشت ہو تو پروائی کہاں سے آئے

 ساتھ وحشت ہو تو پُروائی کہاں سے آئے

رُت خزاں کی ہو تو رعنائی کہاں سے آئے

تُو نے دیکھے ہی نہیں عشق میں پیچ و خم جب

پھر تِرے شعروں میں گہرائی کہاں سے آئے

جس کے ہونٹوں پہ سدا جُھوٹ رہا کرتا ہے

اُس کے کردار میں سچائی کہاں سے آئے

میرے ہر زخم کی گہرائی سمجھنے والے

سوچتا ہوں کہ مسیحائی کہاں سے آئے

جس مکاں میں بھی پنپتی ہے بُرائی لوگو

اس مکاں میں بھلا اچھائی ہیں کہاں سے آئے

میری شوریدہ مزاجی کو پرکھنے والے

پوچھتے ہیں کہ تماشائی کہاں سے آئے

زندگانی کی علامت ہے صداقت احمد

دل ہی کالا ہو تو دانائی کہاں سے آئے


احمد ارسلان کشتواڑی

No comments:

Post a Comment