Saturday 8 June 2024

جبر کرتے ہیں صبر کرتے ہیں

 جبر کرتے ہیں صبر کرتے ہیں

ہم نہ مرنے کی طرح مرتے ہیں

اشک نادیدنی ہیں آنکھوں میں

آہ ناگفتنی سی بھرتے ہیں

مُدعا کوئی حل نہیں ہوتا

بات کرنے کو زور کرتے ہیں

جن کا احساس تک ُنہیں ہوتا

ایسے بھی حادثے گزرتے ہیں

ہم سے اُمیدِ ترکِ عشق نہ رکھ

ہم سے ڈُوبے کہاں اُبھرتے ہیں

دل کی جانب نگاہ لازم ہے

وہ اسی راہ سے گُزرتے ہیں

اے فدا! زندگی معمّہ ہے

جو جلائے اسی بھی مرتے ہیں


فدا خالدی دہلوی

No comments:

Post a Comment