جبر کرتے ہیں صبر کرتے ہیں
ہم نہ مرنے کی طرح مرتے ہیں
اشک نادیدنی ہیں آنکھوں میں
آہ ناگفتنی سی بھرتے ہیں
مُدعا کوئی حل نہیں ہوتا
بات کرنے کو زور کرتے ہیں
جن کا احساس تک ُنہیں ہوتا
ایسے بھی حادثے گزرتے ہیں
ہم سے اُمیدِ ترکِ عشق نہ رکھ
ہم سے ڈُوبے کہاں اُبھرتے ہیں
دل کی جانب نگاہ لازم ہے
وہ اسی راہ سے گُزرتے ہیں
اے فدا! زندگی معمّہ ہے
جو جلائے اسی بھی مرتے ہیں
فدا خالدی دہلوی
No comments:
Post a Comment