رنج یوں راہِ مسافت میں مِلے
کچھ کمائے کچھ وِراثت میں ملے
فلسفے جو نہ صداقت میں ملے
وہ سبھی ہم کو ضرورت میں ملے
خواب تک میں آج کل رِسنے لگے
زخم ہم کو جو حقیقت میں ملے
اب نہیں ہے تاب دل سے ملنے کی
کیا پتہ وہ کیسی حالت میں ملے
ایک دُوجے سے رقابت تھی جنہیں
ایک دُوجے کی حراست میں ملے
جو اندھیروں میں نہ شائستہ رہے
وہ اُجالوں سے خجالت میں ملے
اس دفعہ تو زندگی جلدی میں تھی
کہہ دو اگلی بار فُرصت میں ملے
نوین جوشی
No comments:
Post a Comment