Saturday 1 June 2024

عجب محبوبیت سی وقت کی فطرت میں ہوتی ہے

 وقت اک محبوب ہے


عجب محبوبیت سی وقت کی فطرت میں ہوتی ہے

کبھی دل کو لُبھاتا ہے

تو پھر اس کی عنایت کا تسلسل کم نہیں ہوتا

مسلسل ابرِ رحمت کی طرح 

دل کی دراڑوں میں بھی رِستا ہے

محبت کی پیاسی سرزمیں سیراب کرتا ہے

اسے شاداب کرتا ہے

کبھی دن کی صباحت بانٹتا، شفافیاں تقسیم کرتا ہے

کبھی کالی رِدائیں اوڑھ کر

شب کے سکُوتِ جاں فزا میں سانس لیتا ہے

کبھی یہ پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے

یہ کہتا ہے؛

چلو گزرے زمانے کی محبت یاد کرتے ہیں

کوئی دل کے کواڑوں کو اچانک نیم وا کر کے

ذرا سا مسکراتا ہے

مری بنجر زمینوں پر تراوت آتی جاتی ہے

کثافت دُھلتی جاتی ہے لطافت آتی جاتی ہے

کبھی یہ چلتے چلتے دوڑ کر آگے نکلتا ہے

کہ آؤ اور مجھے چُھو لو

مگر میں نارسائی آشنا

اِس سے ہمیشہ دو قدم پیچھے ہی رہتا ہوں

کبھی باہیں گلے میں ڈال دیتا ہے

بڑی محجوب سی نظروں سے تکتا ہے

تو غم کی سنگلاخی میں دراڑیں ڈال دیتا ہے

کبھی اک شمع روشن کر کے کہتا ہے

لپکتی دوڑتی اس زندگی میں آج تم کِتنے برس کے ہو

اچانک رُوٹھ جاتا ہے

کِسی صُورت نہیں منتا

کوئی منّت، کوئی زاری نہیں سُنتا

اسے اپنا بناؤ بھی تو یہ اپنا نہیں بنتا

کبھی یہ دسترس میں ہی نہیں رہتا

ہوا پر پاؤں رکھتا ہے

خلا میں پھیل جاتا ہے

حدِ امکان سے باہر نکلتا ہے

مکاں سے لا مکاں تک جس قدر وسعت میسر ہے

وہاں تک جھِلملِاتا ہے

میں سرتا پا تحیّر ہوں

مگر اُس کی طِلسمی قید میں خوش ہوں

اسی زِنداں میں رہتا ہوں

اسی میں سانس لیتا ہوں


سلمان باسط

No comments:

Post a Comment