Saturday 8 June 2024

پھر زباں پہ وہی بھولا سا فسانہ آیا

 پھر زباں پہ وہی بھولا سا فسانہ آیا

یاد وہ بے خودی کا پھر سے زمانہ آیا

لیتے انگڑائی ہیں غم زخم لگے ہیں رسنے

یاد جب بھولا ہوا دوست پرانا آیا

وہ ٹھہرتا ہے کہاں لاکھ بلائے کوئی

لوٹ کے وقت کو تو تھا نہیں آنا آیا

زلف ضدی جو جبیں کو مری چھوکر گزری

ابر کو یاد کوئی وعدہ نبھانا آیا

تیتری سنگ یہ دل آج جو آوارہ ہے

لوٹ کے وقت وہ بچپن کا سہانا آیا

چرچا محفل میں جو پھر آج میری تھی نکلی

ہر گلی کوچے سے پھر میرا دیوانہ آیا

کر لیا وعدہ لو پھر اس نے جو ملنے کا پھر

دیکھنا کل نیا کیا یاد بہانہ آیا


دِویا جین

No comments:

Post a Comment