پھر زباں پہ وہی بھولا سا فسانہ آیا
یاد وہ بے خودی کا پھر سے زمانہ آیا
لیتے انگڑائی ہیں غم زخم لگے ہیں رسنے
یاد جب بھولا ہوا دوست پرانا آیا
وہ ٹھہرتا ہے کہاں لاکھ بلائے کوئی
لوٹ کے وقت کو تو تھا نہیں آنا آیا
زلف ضدی جو جبیں کو مری چھوکر گزری
ابر کو یاد کوئی وعدہ نبھانا آیا
تیتری سنگ یہ دل آج جو آوارہ ہے
لوٹ کے وقت وہ بچپن کا سہانا آیا
چرچا محفل میں جو پھر آج میری تھی نکلی
ہر گلی کوچے سے پھر میرا دیوانہ آیا
کر لیا وعدہ لو پھر اس نے جو ملنے کا پھر
دیکھنا کل نیا کیا یاد بہانہ آیا
دِویا جین
No comments:
Post a Comment