میری سوچوں سے ہمکلام رہا
بادشہ تھا، مگر غلام رہا
بُھول کر یاد تجھ کو کرتی رہی
خود سے کیسا یہ انتقام رہا
میں نے ٹُھکرا دیا تھا اپنوں کو
تیرا سب سے دُعا سلام رہا
لبوں سے ٹُوٹ کر گری خُوشیاں
ایک بس درد کو دوام رہا
زندگی کھل نہیں سکی شبنم
جینے والوں میں میرا نام رہا
شبنم کنول
No comments:
Post a Comment