Sunday 2 June 2024

زندگی کی تلخیاں سب راحتِ جاں ہو گئیں

 زندگی کی تلخیاں سب راحتِ جاں ہو گئیں

'مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں'

کشتیٔ عمرِ رواں کو دیکھ کر اس میں مِری

سخت جانی سے مِری موجیں پریشاں ہو گئیں

آج کورونا وائرس سے ہیں سبھی وحشت زدہ

اس کے آگے سب وبائیں طاقِ نسیاں ہو گئیں

کر رہے ہیں لوگ ہجرت یوں قطار اندر قطار

شہر ویراں ہو گئے،۔ سُنسان گلیاں ہو گئیں

پارکوں اور نَرغزاروں میں نظر آتی تھیں جو

اِن دنوں کافور وہ سب رنگ رلیاں ہو گئیں

اجتماعی فاصلے پہلے ہی تھے سوہانِ روح

لاک ڈاؤن سے سبھی قومیں پریشاں ہو گئیں

غُنچہ و گُل کہہ رہے ہیں یہ زباں حال سے

راحتِ جاں تھیں جو کلیاں دشمنِ جاں ہو گئیں

درس عِبرت ہے یہ منظر نامہ عہدِ رواں

دیکھ کر غالب کی آنکھیں بھی جو حیراں ہو گئیں

طرحی غزلیں لکھ رہا ہوں اِن دنوں جو فی البدیہہ

وہ کتابِ زندگی کا میری عنواں ہو گئیں

لرزہ بر اندام ہیں برقی سب اقوامِ مِلل

اپنی طاقت پر جو نازاں تھیں وہ نالاں ہو گئیں


احمد علی برقی اعظمی

No comments:

Post a Comment