تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب
جس طرح ہو جا صبا سے کاکلِ مُشکیں خراب
جوں نسیم صبح غُنچے گُل کے سب برباد دے
سرد مہری سے بُتوں کی ہیں دل رنگیں خراب
بے دماغی مت کر اے ظالم کہ جوں موج اور حباب
دل مِرا کر دے ہے پل میں ابروئے پر چیں خراب
جوں جلے ہے شمع کا مُشت زر اور تسبیح اشک
جس طرح سرکش کا ہے دنیا خراب اور دیں خراب
تھا بنا عزلت وہ جب فولاد دل پرویز سے
تب تو تیشے نے کیا یوں خانۂ شیریں خراب
ولی عزلت
No comments:
Post a Comment