Tuesday 11 June 2024

تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب

 تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب

جس طرح ہو جا صبا سے کاکلِ مُشکیں خراب

جوں نسیم صبح غُنچے گُل کے سب برباد دے

سرد مہری سے بُتوں کی ہیں دل رنگیں خراب

بے دماغی مت کر اے ظالم کہ جوں موج اور حباب

دل مِرا کر دے ہے پل میں ابروئے پر چیں خراب

جوں جلے ہے شمع کا مُشت زر اور تسبیح اشک

جس طرح سرکش کا ہے دنیا خراب اور دیں خراب

تھا بنا عزلت وہ جب فولاد دل پرویز سے

تب تو تیشے نے کیا یوں خانۂ شیریں خراب


ولی عزلت

No comments:

Post a Comment