Tuesday 11 June 2024

نشان رفتگاں ابتر کھڑے ہیں

 نشانِ رفتگاں ابتر کھڑے ہیں

فصیلیں گر گئیں ہیں در کھڑے ہیں

پسِ منظر کوئی طوفان ہو گا

کہ دم سادھے ہوئے منظر کھڑے ہیں

ہمی نے اس کے ترکش کو بھرا تھا

مگر ہم بھی نشانے پر کھڑے ہیں

سُنا ہے آج وہ باتیں کرے گا

سماعت کے لیے پتھر کھڑے ہیں

بہت سے سر کشیدہ دار پر ہیں

جو باقی ہیں خمیدہ سر کھڑے ہیں

ہم اپنا قد بڑھا کر کیا کریں گے

غنیمت ہے کہ پیروں پر کھڑے ہیں

ہزراروں لوگ مےخانے میں اشعر

امیدِ قطرۂ مئے پر کھڑے ہیں


علی مطہر اشعر

No comments:

Post a Comment