میں تیرے عشق کا کامل نصاب ہو جاؤں
ہر اک سوال کا عمدہ جواب ہو جاؤں
کبھی تو چُھو مجھے اپنے حسین ہاتھوں سے
میں تِرے لمس کو پا کر گُلاب ہو جاؤں
پیے تُو جام سے ساغر سے یا پیالے سے
رہے تُو تشنہ، میں ایسی شراب ہو جاؤں
میں معتبر تِری آنکھوں میں ہر گھڑی ٹھہروں
زوال جس کو نہ ہو وہ شباب ہو جاؤں
جسے تُو پڑھتا رہے ساری زندگی ہمدم
"ترے میں عشق کی پہلی کتاب ہو جاؤں"
تِری ہی خُوشبو سے میرا بدن سدا مہکے
تِری ضیا سے ہی میں ماہتاب ہو جاؤں
تجھے جو مست کرے سلمہ دُھن سنائے وہی
میں خود کو کر کے فنا اک رُباب ہو جاؤں
سلمہ جہاں
سلمیٰ جہاں
No comments:
Post a Comment