ایک پرانی شب کا دُکھ ہے
کیا بتلاؤں کب کا دکھ ہے
اک لمحے میں کیسے کہہ دوں
کیا یہ کوئی اب کا دکھ ہے؟
پہلی بار جب اس نے مجھ سے
آنکھ چرائی تب کا دکھ ہے
شجرہ عالی نیچ مصاحب
جھوٹے نام نسب کا دکھ ہے
بس وہ میرا درد نہ جانے
باقی اس کو سب کا دکھ ہے
قابض اہلِ زر ہیں ہر جا
یہ ہر اک منصب کا دکھ ہے
آج بھی ہے جو آدھ ادھوری
عنبر ایک طلب کا دکھ ہے
فرحانہ عنبر
No comments:
Post a Comment