Saturday 8 June 2024

تماشہ دیکھ رہی ہے ہوا بکھرنے کا

 تماشہ دیکھ رہی ہے ہوا بکھرنے کا

ہمیں مزاج نہیں ان دنوں سنورنے کا

ذرا سی دیر میں اس نے جواب بھیج دیا

سو کھیل ختم ہوا، ڈُوبنے اُبھرنے کا

یہاں سے اور گھنا ہے وجود کا جنگل

یہاں سے آگے سفر اور بھی ہے ڈرنے کا

تمہارے چہرے پہ کھلتے ہی بن رہی تھی خوشی

ذرا سی دیر کو ناٹک کیا تھا مرنے کا

یہاں بھی کوئی نہیں ہے گلے لگانے کو

چلو ملال گیا دل سے پار اترنے کا

جو دیکھیے تو اُداسی ہے تازہ دم  آزاد

جو سوچیے تو یہ موسم ہے شاد کرنے  کا


سہیل آزاد

No comments:

Post a Comment