تماشہ دیکھ رہی ہے ہوا بکھرنے کا
ہمیں مزاج نہیں ان دنوں سنورنے کا
ذرا سی دیر میں اس نے جواب بھیج دیا
سو کھیل ختم ہوا، ڈُوبنے اُبھرنے کا
یہاں سے اور گھنا ہے وجود کا جنگل
یہاں سے آگے سفر اور بھی ہے ڈرنے کا
تمہارے چہرے پہ کھلتے ہی بن رہی تھی خوشی
ذرا سی دیر کو ناٹک کیا تھا مرنے کا
یہاں بھی کوئی نہیں ہے گلے لگانے کو
چلو ملال گیا دل سے پار اترنے کا
جو دیکھیے تو اُداسی ہے تازہ دم آزاد
جو سوچیے تو یہ موسم ہے شاد کرنے کا
سہیل آزاد
No comments:
Post a Comment