کتابِ دل اگر پڑھتا نہیں ہے
تو پھر سُقراط بھی دانا نہیں ہے
کتابِ عشق میں سائے کا مطلب
در و دیوار کا سایہ نہیں ہے
کہاں سے ہو کوئی مجنوں فراہم
ہمارے شہر میں صحرا نہیں ہے
مگر پھر کہہ دیا گردِ سفر نے
مسافر دُور سے آیا نہیں ہے
ستارے نے کہا گرنے سے پہلے
زمیں پر اب کوئی مجھ سا نہیں ہے
رُلا دے گا ہر اک صاحبِ نظر کو
اگرچہ واقعہ سچا نہیں ہے
تو گویا پیاس ہے پانی میں شامل
تو گویا اور کچھ پیاسا نہیں ہے
عجب سے آگ ہے دل کی کہ اس میں
وہی جلتا ہے جو جلتا نہیں ہے
نکل آیا ہے پھر مشرق سے سورج
ابھی یہ راستہ بُھولا نہیں ہے
ابھی ناپا ہے میں نے آنسوؤں سے
مِری جاں! زخمِ دل گہرا نہیں ہے
ہوا کے پاؤں کیوں تھکتے نہیں ہیں
اسے کیا ایک دن رُکنا نہیں ہے
تمہاری رائے تو اچھی ہے لیکن
تمہارا مشورہ اچھا نہیں ہے
جہاں دیکھو ادھُوری ہے کہانی
کہیں مجنوں، کہیں لیلیٰ نہیں ہے
شاہنواز فاروقی
No comments:
Post a Comment