دنیا
میں عالمِ سراب ہوں
میں حکم میں عتاب ہوں
نہ وقت کو کُرید تُو
میں تو کُھلی کتاب ہوں
تُو غور کر کہ کیا ہوں میں
گُناہ کا جواب ہوں
جہانِ نوبہار سُن
قدیم تر تُراب ہوں
فراق جو تمہیں مِلا
میں ہی تو وہ حجاب ہوں
نظر اُٹھا کے دیکھ تُو
میں خانماں خراب ہوں
کبھی عطا، کبھی سزا
میں آتش و گلاب ہوں
کبھی بنی میں گور تو
کبھی بنی شباب ہوں
سبق ہوں اہلِ علم کا
طویل تر نصاب ہوں
جہانِ معرفت بھی میں
میں علم کی شراب ہوں
ہے حرف حرف لکھ لیا
گھڑی گھڑی حساب ہوں
یہ اختتام ہے میرا
کہا ہے سچ حباب ہوں
اسماء آرزو
No comments:
Post a Comment