عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
در مدح امامِ حسن مجتبیٰؑ
مدحِ حسنؑ میں دھانی ہوتے گئے نظارے
شاداب سے کنائے سر سبز استعارے
مدحت بہ لب پرندے شاعر پسند موسم
تازہ کلام بارش محوِ ثناء پھوارے
نرگس نے آنکھ کھولی جس ذکر کی اذاں سے
سُنبل نے بال اپنے اُس ذکر سے سنوارے
غُنچوں کی مُٹھیوں میں زیرے ہیں کچھ طلائی
ذرے لیے ہوئے ہیں جھولی میں کچھ ستارے
جو دل یہ جانتے ہیں والذکر کے فوائد
وہ دل نہیں اٹھاتے والعصر کے خسارے
آورد تجھ کو سمجھا تقدیس کا دریچہ
آمد کو میں نے جانا محبوب کے اشارے
مولائی آبشاریں، ماتم نشاں چٹانیں
کچھ سرفراز جھیلیں، کچھ سرخرو شکارے
اِس نہر کا ہے پانی، تسبیح کی روانی
اک شعرِ منقبت ہیں کوثر کے دو کنارے
زنبیل کھول دی ہے یہ کہہ کے کہکشاں نے
جو ہے اسی کی دولت جو ہے اسی کے دوارے
وصفِ سخیؑ سے جب تک روٹی تنور میں ہے
پُھولے نہیں سماتی وہ بھی خُوشی کے مارے
سمجھے ہیں جو زبانیں مخلوقِ بے زباں کی
اُن گوش میں اذانیں کہتے ہیں گوشوارے
جو ہے بنائے فطرت وہ عشق ہے تمہارا
جو بوسہ گاہِ احمدﷺ وہ ہونٹ ہیں تمہارے
آنکھوں پہ مر مٹی ہے تخلیق آسماں کی
یہ زنجبیل موجیں، یہ سلسبیل دھارے
آیت کو ہے ضروری اس دم نظر کا ٹیکا
فضہؑ سے کوئی کہہ دو کاجل ذرا سا پارے
عالم چراغ چہرہ،۔ شانہ پناہ گیسو
حیدرؑ جبین چومے،۔ زہراؑ نظر اتارے
کیا کیا حسِین حُوریں جنت سے کہہ رہی ہیں
اللہ کے قریبی پیارے نبیﷺ کے پیارے
سرکارﷺ روشنی کو سرکارﷺ دیکھتے ہیں
آئینے کی نگاہیں آئینے پر ہیں وارے
یہ نازشِ زکریا کی حکمتیں تو دیکھو
صلحِ درخت روشن ظلمت میں غرق آرے
مداحئ وفا میں توصیفِ خاکِ پا میں
یہ جیت ہے ہماری جو فکر کرکے ہارے
فرزںدِ فاطمہؑ کی اِس نظم کے تصدق
تسبیح میں خدا نے میرے سخن شمارے
کمیل شفیق رضوی
No comments:
Post a Comment