Saturday, 3 August 2024

غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا

 غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اُٹھتا

مرتے ہیں، مگر نازِ مسیحا نہیں اٹھتا

کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے

کس روز مِرے قتل کا بِیڑا نہیں اٹھتا

بل پڑتے ہیں پہونچے میں لچکتی ہے کلائی

نازک ہیں بہت پھولوں کا گجرا نہیں اٹھتا

فرمائیے ارشاد، پہاڑوں کو اُٹھا لوں

پر رشک کا صدمہ نہیں اٹھتا نہیں اٹھنا

کُوچہ میں منیر ان کے میں بیٹھا تو وہ بولے

ہے ہے مِرے دروازے سے پہرا نہیں اٹھتا


منیر شکوہ آبادی

No comments:

Post a Comment