Friday, 16 August 2024

پریشاں ہو کے اپنی زندگی سے

 پریشاں ہو کے اپنی زندگی سے

کنارا کر لیا تھا ہر کسی سے

ہمیشہ در گزر کرتے رہیں کیا

تمہاری بے رخی کو ہم خوشی سے

دکھا کر دل ہمارا کیا ملے گا

بتاؤ؛ پوچھتی ہوں عاجزی سے

مراسم اور گہرے ہو گئے ہیں

سنا ہے آپ کے اک اجنبی سے

کہاں ہے اور کیسا ہے ابھی وہ

نگاہیں پوچھتی ہیں ہر کسی سے

سمندر مات کھاتا جا رہا ہے

ہمارے ضبط سے دریا رہا ہے

کوئی کیوں نور سے آ کر ملے گا

بہت بیزار ہیں سب روشی سے


نیلوفر نور

No comments:

Post a Comment