پریشاں ہو کے اپنی زندگی سے
کنارا کر لیا تھا ہر کسی سے
ہمیشہ در گزر کرتے رہیں کیا
تمہاری بے رخی کو ہم خوشی سے
دکھا کر دل ہمارا کیا ملے گا
بتاؤ؛ پوچھتی ہوں عاجزی سے
مراسم اور گہرے ہو گئے ہیں
سنا ہے آپ کے اک اجنبی سے
کہاں ہے اور کیسا ہے ابھی وہ
نگاہیں پوچھتی ہیں ہر کسی سے
سمندر مات کھاتا جا رہا ہے
ہمارے ضبط سے دریا رہا ہے
کوئی کیوں نور سے آ کر ملے گا
بہت بیزار ہیں سب روشی سے
نیلوفر نور
No comments:
Post a Comment