یہ جو بدن میں لہو کو امان دی ہوئی ہے
کسی کو جینے کی ہم نے زبان دی ہوئی ہے
تجھے ہم اپنے تعارف میں کیا کہیں پیارے
ہمارے واسطے لوگوں نے جان دی ہوئی ہے
وہ بے وفا ہے مگر محترم ہے میرے لیے
کہ اُس نے میری غزل کو اُٹھان دی ہوئی ہے
کبھی میں اُس کا رہا ہوں سو یہ سمجھتا ہوں
کہ میں نے صحنِ حرم میں اذان دی ہوئی ہے
وه میری ماں مِری جنت کہ جس نے سر پہ مِرے
دُعاؤں کی کوئی چادر سی تان دی ہوئی ہے
سرور خان سرور
No comments:
Post a Comment