Sunday, 4 August 2024

یہ جو بدن میں لہو کو امان دی ہوئی ہے

 یہ جو بدن میں لہو کو امان دی ہوئی ہے

کسی کو جینے کی ہم نے زبان دی ہوئی ہے

تجھے ہم اپنے تعارف میں کیا کہیں پیارے

ہمارے واسطے لوگوں نے جان دی ہوئی ہے

وہ بے وفا ہے مگر محترم ہے میرے لیے

کہ اُس نے میری غزل کو اُٹھان دی ہوئی ہے

کبھی میں اُس کا رہا ہوں سو یہ سمجھتا ہوں

کہ میں نے صحنِ حرم میں اذان دی ہوئی ہے

وه میری ماں مِری جنت کہ جس نے سر پہ مِرے

دُعاؤں کی کوئی چادر سی تان دی ہوئی ہے


سرور خان سرور

No comments:

Post a Comment