نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پرواہ، نہ دماغ زندگی کا
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفس ازل سے، ہے ایاغ زندگی کا
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
وارث اسد
No comments:
Post a Comment