Tuesday 20 August 2024

جو بھی ہو سکتا ہے نصرت کا وہ عنوان تھا وہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت مرثیۂ عباسؑ


جو بھی ہو سکتا ہے نصرت کا وہ عنوان تھا وہ

ہر طرح آلِؑ پیمبرﷺ کا نگہبان تھا وہ

کبھی سقہ کبھی خادم کبھی دربان تھا وہ

معجزہ تھا شہِ بیکس کا، کہ انسان تھا وہ

رات کو خیمۂ سرورؑ کا نگہدار بنا

صبح کو فوجِ حسینی کا علمدار بنا


گرد خیموں کے طواف اٹھ کے لگاتا تھا کبھی

باہر آتا تھا کبھی خیمہ میں جاتا تھا کبھی

گود میں لے کے بھتیجی کو کھلاتا تھا کبھی

جھولا بے شیر کا جا جا کے جھلاتا تھا کبھی

آتا گھبرا کے کبھی سیدِ مظلومؑ کے پاس

بیٹھ جاتا تھا کبھی زینبؑ و کلثومؑ کے پاس


پیاسے بچوں کا خیال اور بھی تڑپاتا تھا

دیکھتا تھا سُوئے افواج تو بل کھاتا تھا

ضبط کرتا تھا مگر جسم لرز جاتا تھا

یا علیؑ کہتا تھا جب خون میں جوش آتا تھا

صبر کی تیغ سے خود رشتۂ جان کٹ جاتا

دوسرا کوئی جو ہوتا تو جگر پھٹ جاتا


پیام اعظمی

سید قنبر حسین

No comments:

Post a Comment