عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سناں کی نوک پہ جینا سکھا دیا گیا ہے
صراط عشق سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے
سفر نہیں ہے یہ ہجرت ہے سوئے کرب و بلا
ہمیں شعور کا رستہ دکھا دیا گیا ہے
دیار دل میں نہیں ہے اگر بتولؑ کا غم
تِرا ضمیر سقیفہ بنا دیا گیا ہے
رگوں میں دوڑ رہا ہے غرور تشنہ لبی
ہمیں فرات کا منظر دکھا دیا گیا ہے
نہ کر سکے گا کسی طور بیعت فاسق
جسے غدیر کا قصہ سنا دیا گیا ہے
بلا کے مجھ سے کہیں کاش ضامن آہو
تمہیں سخن کا سلیقہ سکھا دیا گیا ہے
جمال یوسف زہراؑ کی خیر جس کے سبب
زمیں پہ تخت الہی بچھا دیا گیا ہے
معصومہ شیرازی
No comments:
Post a Comment