نئے نصاب نئے باب دیکھنے آئے
مرے مزاج کے وہ خواب دیکھنے آئے
میں جھیل بن گیا آخر تِری محبت میں
کہ مجھ میں تُو کبھی مہتاب دیکھنے آئے
ہمیں سکون سے آتی تھی نیند گاؤں میں
اگرچہ شہر میں ہم خواب دیکھنے آئے
پھر ایک لہر اٹھی ساتھ لے گئی سب کو
وہ بے خبر تھے جو سیلاب دیکھنے آئے
وہ جس کو دیکھتے ہی لوگ سانپ بن گئے تھے
پلٹ کے آپ وہی خواب دیکھنے آئے
میں جن کی آخری امید تھا مجھے عادس
خراب وقت میں شاداب دیکھنے آئے
امجد شبیر عادس
No comments:
Post a Comment