فلسطین
تماشائی ہیں سب
زمیں دیکھتی ہے فلک دیکھتا ہے
لہو ہی لہو ہے
کہیں خاک ہے اور کہیں خون میں تر بدن بولتے ہیں
کئی ہاتھ ہیں جو کہ پھیلے ہوئے ہیں
کئی آنکھیں چپ کی زباں بولتی ہیں
کئی جسم بے سر ہیں نوحہ کناں ہیں
میں انسان ہوں
ابابیل تو اب نہیں آنے والے
اے شہرِ خموشاں
اے کوفہ کے باسی
میں تم ہوں جو آندھی کی زد میں پڑا ہوں
اٹھو اور نکلو
خودی کو بچاؤ
اٹھو آشیاں کو سنبھالو
یہ مرکز تو لاوا اگلتا رہے گا
ہواؤں کا رخ ہے بدلتا رہے گا
رافع بخاری
No comments:
Post a Comment