Sunday, 4 August 2024

زمیں دیکھتی ہے فلک دیکھتا ہے لہو ہی لہو ہے

 فلسطین


تماشائی ہیں سب

زمیں دیکھتی ہے فلک دیکھتا ہے

لہو ہی لہو ہے

کہیں خاک ہے اور کہیں خون میں تر بدن بولتے ہیں 

کئی ہاتھ ہیں جو کہ پھیلے ہوئے ہیں

کئی آنکھیں چپ کی زباں بولتی ہیں 

کئی جسم بے سر ہیں نوحہ کناں ہیں

میں انسان ہوں

ابابیل تو اب نہیں آنے والے

اے شہرِ خموشاں 

اے کوفہ کے باسی 

میں تم ہوں جو آندھی کی زد میں پڑا ہوں 

اٹھو اور نکلو 

خودی کو بچاؤ

اٹھو آشیاں کو سنبھالو

یہ مرکز تو لاوا اگلتا رہے گا 

ہواؤں کا رخ ہے بدلتا رہے گا


رافع بخاری

No comments:

Post a Comment