ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
کیا مہذّب ممالک کا یہ کام ہے؟
ظلم و عروان چاروں طرف عام ہے
بیوہ ہیں عورتیں اور بچے یتیم
عزتوں کا کھلے عام نیلام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
کر دیا تو نے شرمندہ حیوان کو
بم کے سائے میں رکھا ہے انسان کو
اسپتالوں کو بھی تو نے بخشا نہیں
تیرے سینے میں کیا دل دھڑکتا نہیں؟
ظلم ڈھانا جہاں میں ترا کام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
جو بھی دنیا میں اب تک ہوئی جنگ ہے
تیری اک اک ادا باعث ننگ ہے
جبر تیرا ہے شامل ہراک چیخ میں
نام ہے درج تیرا تواریخ میں
جنگ کی فکر تجھ کو بہ ہر گام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
تُو کہ جھوٹا فر یبی ہے مکار ہے
تُو ہے وحشی، درندہ سیہ کار ہے
جھوٹ کے ہی سہارے تو لڑتا ہے جنگ
اپنی عیاری سے سب کو کرتا ہے تنگ
ساری دنیا کی خاطر تو دشنام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
کتنی مشکل بنادی ہے یہ زندگی
تُو نے چھینی ہے بچوں سے ان کی خوشی
لا ش کاندھوں پہ ماں باپ کے الاماں
ہے یہ کیسی سزا دشمنِ انس و جاں
مٹ رہی زندگانی سر شام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
تنگ کر دی ہے سب کے لیے یہ زمیں
بے بسی اس قدر میں نے دیکھی نہیں
تُو نے معزور لوگوں کو بے گھر کیا
سر ہزاروں کا تُو نے قلم کر دیا
تُو ہے قاتل، بُرا تیرا انجام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
ملک در ملک ویران تُو نے کیا
بے کفن دفن انسان تُو نے کیا
گھر پہ لوگوں کے برسائے دن رات بم
پھر بھی ہوتا ہے کب تجھ کو افسوس و غم
درد ہے ، زخم ہے ، غم ہے آلام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
قتل کرکے مجھی پر یہ الزام ہے
میں ہی مجرم ہوں دہشت مرا کام ہے
تجھ سے واقف ہوں کیسا تو عیار ہے
تجھ سے بڑھ کر نہیں کوئی مکار ہے
پھر بھی کوشش میں اپنے تو ناکام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
ظلم معصوم لوگوں پہ تونے کیا
بےگناہوں کو ہر طرح ٹھکرا دیا
تجھ پہ لعنت بھلا کیوں نہ بھیجے جہاں
تجھ سے بڑھ کر ہے شیطان کوئی کہاں
ظلم کا تیرے چرچا ہر اک گام ہے
ہر تبائی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
تر بہ تر آج خوں سے ترا ہاتھ ہے
ساری دنیا کا ظالم ترے ساتھ ہے
یاد رکھنا ہلاکو کو چنگیز کو
اور ہٹلر کے مانند خوں ریز کو
آج تو سارے عالم میں بدنام ہے
ہر تباہی میں شامل ترا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
ظلم و طغیان میں بھی سلامت ہوں میں
زندگی کی جہاں میں علامت ہوں میں
مجھ کو ہو گا نہ تھا گاہِ خوف وفات
موت ہی میں ہے پوشیدہ میری حیات
اصل میں یہ شہادت کا انعام ہے
ہر تباہی میں شامل تِرا نام ہے
دنیا والوں کا تجھ پر یہ الزام ہے
معین ناصر
No comments:
Post a Comment