وہ کیا چاہتے ہیں
میں نے فلسطینی بھائیوں کے لیے اخبار میں بیان دیا
انہوں نے یہ بیان میرے منہ پر دے مارا
اور کہا
ہمارے پاس اب صرف مورچے باقی بچے ہیں
عرب بھائیوں کے بیانات سے
ہمارے گھر اور گودام بھر گئے ہیں
میں نے انہیں چاول اور گندم بھیجی
انہوں نے واپس کر دی کہ
کھانے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے
انہیں دن رات لڑنا ہوتا ہے
ویسے بھی خمار آلود غذا ان کے لیے مضر ہے
میں نے کچھ پیسے انہیں بھیجے
انہوں نے رد کر دئیے
اور کہا
ہمیں سکوں کی نہیں، گولیوں کی ضرورت ہے
ایک سر کی ضرورت ہے
ایک گورکن کی ضرورت ہے
لیکن ہم تمہیں بحیثیتِ گورکن بھی قبول کرنے کو تیار نہیں
میں گھر واپس آیا
اور فلسطینی بھائیوں کے لیے ایک نظم لکھی
یہ سوچ کر کہ گولہ باری میں ان کی شاعری دب کر ہلاک ہو گئی ہو گی
اور انہیں نظم کی یقیناً ضرورت ہو گی
انہوں نے میری نظم کا منہ نوچ لیا
اور اسے یہ کہ کر بھگا دیا
کہ ہمیں محفوظ رتبے والے شاعر کی شاعری نہیں چاہیے
جو برف باری اور گولہ باری میں فرق نہیں سمجھتا
جس کے لفظ نرم تکیے پر سر رکھ کر سوتے ہیں
میں نے ان کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھائے
انہوں نے افسوس کیا
کہ کاش یہ ہاتھ ان کے دشمن پر اٹھتے
میں انہیں اپنے بچے کا ٹینک بھیج سکتا ہوں
جس کی چابی اس نے توڑ دی ہے
میں فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں
ان سے پوچھو
وہ کیا چاہتے ہیں
اصغر ندیم سید
No comments:
Post a Comment