کھیل
جنگ کو کھیل سمجھتا ہے عدو
خندقیں کھود کے بیٹھا ہوں
میں اپنے دل میں
سر کا کیا تھا؟
اُسے سجدے میں چھپا آیا ہوں
میری قسمت کہ میں ہاتھوں کو دعا کہتا ہوں
اور آنکھیں تو کسی خواب کی تحویل میں ہیں
برسوں سے حافظہ میں ابھی تاریخ کو سونپ آیا ہوں
پاؤں صدیوں کا سفر لے گیا مدت گزری
کون کہتا ہے کہ میں صاحبِ اسباب نہیں
یہ زمیں میرا بچھونا ہے
فلک چادر ہے اور ستارے مِری امیدیں ہیں
جنگ کو کھیل سمجھتا ہے عدو
دیکھیے کھیل بگڑنے کی خبر کب آئے
وہ جو موجود ہے
دنیا کو نظر کب آئے
شاہنواز فاروقی
No comments:
Post a Comment