عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے امیر عرب بن بھی جائے سبب اک ملاقات کا آخری آخری
کاش عالی نسب سامنے ہوں میرے سانس نکلے گا جب آخری آخری
میری نظریں ہوں گنبد پہ ٹہریں ہوئیں جسم ساکت ہو صحن نبیؐ میں پڑا
میرے طیبہ یہ چھب ہے میری جاں بلب تیرا منظر غضب آخری آخری
ہو جنازہ میرا صحن مسجد میں یوں سامنے ہو محمدﷺ کے گھر کا نگر
پوری ہو یہ طلب پوری ہو التجا کر لوں کوئی کسب آخری آخری
ختم جن پہ نبوّت کا ہر باب ہے،۔ جن کی تعریف میں قطرۂ آب ہے
تم سے آئے کھرب، انؐ سا کوئی نہیں، وہؐ ہیں اُمّی لقب آخری آخری
میں نہیں جانتی مجھ کو مرنا ہے بس اے مدینہ مجھے کوئی کونہ بھی دے
انؐ کے در کا عقب بھی مجھے ہے بہت کیسے ہو گا یہ سب آخری آخری
کیا بتاؤں "ورفعنا ذکرک" کا حُب وہ مقام نبیﷺ کیسے ہو گا بیاں
جن کا ہر جا ادب جو ہیں معراجِ رب، جن سے اسود نصب آخری آخری
مجھ کو بھی جالیوں کی اجازت ملے چُوم لوں میں لگاؤں گی رو کر گلے
معاملہ ہو عجب، رُوح پرواز ہو، نعت پڑھ لوں گی جب آخری آخری
حُرمت مصطفٰیﷺ ایسی تلوار ہے سر کٹے گا فقط ایسی اک دھار ہے
وہ چچا تھا لہب وہ ناں بخشا گیا،۔ حملت الحطب آخری آخری
اے بقیہ! تیری خاک پہ چشم نم، دم یہ نکلےاسی آس میں دم بدم
مٹیوں کی ارب ڈھیریاں ہیں پڑی، پر وہ تیرا ادب آخری آخری
بات نکلے گی تب دُور ہی جائے گی سوچ لو کہ یہ نسبت کہاں جائے گی
میں حسینی نسب جن کے نانا نبیﷺ انبیاء حسب آخری آخری
سیدہ مہرو مصور صلاح الدین
No comments:
Post a Comment