عیب اوروں میں گُن رہا ہے وہ
اس کو لگتا ہے یُوں خُدا ہے وہ
میری تدبیر کو کنارے رکھ
میری تقدیر لکھ رہا ہے وہ
میں نے مانگا تھا اس سے حق اپنا
بس اسی بات پر خفا ہے وہ
پتھروں کے شہر میں زندہ ہے
لوگ کہتے ہیں آئینہ ہے وہ
اس کی وہ خامشی بتاتی ہے
میرے دُشمن سے جا ملا ہے وہ
سنجو شبدتا
No comments:
Post a Comment