خزاں نصیب چمن کی بہار ہے کہ نہیں
قبائے غنچہ و گل تار تار ہے کہ نہیں
غمِ حیات،۔ غمِ عشق،۔ اور غمِ دوراں
کسی کو دنیا میں ان سے فرار ہے کہ نہیں
رہ حیات میں اکثر گماں یہ گزرا ہے
مِری وفا کا انہیں اعتبار ہے کہ نہیں
بڑے تپاک سے دل نے یہ ہم پوچھا ہے
کوئی ہماری طرح بے قرار ہے کہ نہیں
غم حیات سے جس کو فرار مل نہ سکا
قرار سے وہی زیر مزار ہے کہ نہیں
کوئی بھی سچ کے سوا جھوٹ بولتا ہی نہیں
یہ سانحہ ہے تمہیں اعتبار ہے کہ نہیں
تمہاری فرقہ پرستانہ ذہنیت کی قسم
تمام ارض وطن شعلہ بار ہے کہ نہیں
یہ اقتدار کے بھوکوں سے پوچھنا ہے طرب
تمہارے دم سے وطن زیر بار ہے
طرب صدیقی
No comments:
Post a Comment