ہے لہو شہیدوں کا نقش جاوداں یارو
مقتلوں میں ہوتی ہے آج بھی اذاں یارو
سیلِ وقت ہوں مجھ کو کون روک سکتا ہے
چھین لو قلم چاہے کاٹ لو زباں یارو
بال و پر کی محرومی اور خوں رلاتی ہے
جب بھی دیکھ لیتا ہوں سوئے آسماں یارو
اس نگاہ بہم کو اور کس سے دوں نسبت
نوک بے سناں یارو، تیر بے کماں یارو
ان کی بزم رنگیں کا اہل تو نہ تھا لیکن
کام آ گئی میری شوخیٔ بیاں یارو
یہ بھی اپنے محور کی سمت لوٹتا ہو گا
بے سبب نہیں اٹھتا آگ سے دھواں یارو
اس صدی نے بخشا ہے مجھ کو ایک نیا لہجہ
مجھ سے چھٹ نہیں سکتی جدتِ بیاں یارو
دلکش ساگری
No comments:
Post a Comment