محبت ہے سانپوں کی جب بے وقوفی
تو لوگوں سے اُلفت کا ڈھب بے وقوفی
حسد، بُغض، کینہ، جلن کی وبائیں
یہاں چاہتوں کا مطب بے وقوفی
محبت میں دوں تو محبت ملے گی
میرے نظریے کا سبب بے وقوفی
بوجہِ غریبی مِری ہر ادا کو
دیا دوستوں نے لقب بے وقوفی
مدامِ مصائب کی فکریں حماقت
خیالِ دوامِ طرب بے وقوفی
مبرّائے خواہش جہانِ محبت
یہاں پر صِلے کی طلب بے وقوفی
یہ چھوڑ اعتبار و یقیں کے فسانے
میاں دَورِ حاضر میں سب بے وقوفی
بلال قاسم
No comments:
Post a Comment