Tuesday, 8 October 2024

نیک اعمال کیے ہوتے تو جنت واجب ہو جاتی

قید میں رکھتے تب بھی اس کے دل کی چھتری رو جاتی

بھاگ کے ہم جو باغ میں جاتے تِتلی تب بھی کھو جاتی

اس دُنیا نے خواب کے بُت میں دھڑکن ہونا تھا لیکن

ساحل کے پر لگ جانے سے کشتی کاغذ ہو جاتی

اقتدار کے ٹکڑے کر کے جرگے کے سرپنجوں نے

نیک اعمال کیے ہوتے تو جنت واجب ہو جاتی

انگلی چھُو کر جلنے والے انگاروں میں روشن تھا

ہاتھ میں ٹھنڈک آنے سے جس بال کی روٹی کھو جاتی

نیند نے میرے خواب میں آ کر اتنے پہلو بدلے ہیں

چاند سے آنے والی بُڑھیا لمبی تان کے سو جاتی

کاش کہ پردے اُٹھ سکتے ان سانسوں کی خاموشی سے

کاش کہ موجِ زیست ہمارا داغِ نِدامت دھو جاتی


بلال شبیر ہادی 

No comments:

Post a Comment