قید میں رکھتے تب بھی اس کے دل کی چھتری رو جاتی
بھاگ کے ہم جو باغ میں جاتے تِتلی تب بھی کھو جاتی
اس دُنیا نے خواب کے بُت میں دھڑکن ہونا تھا لیکن
ساحل کے پر لگ جانے سے کشتی کاغذ ہو جاتی
اقتدار کے ٹکڑے کر کے جرگے کے سرپنجوں نے
نیک اعمال کیے ہوتے تو جنت واجب ہو جاتی
انگلی چھُو کر جلنے والے انگاروں میں روشن تھا
ہاتھ میں ٹھنڈک آنے سے جس بال کی روٹی کھو جاتی
نیند نے میرے خواب میں آ کر اتنے پہلو بدلے ہیں
چاند سے آنے والی بُڑھیا لمبی تان کے سو جاتی
کاش کہ پردے اُٹھ سکتے ان سانسوں کی خاموشی سے
کاش کہ موجِ زیست ہمارا داغِ نِدامت دھو جاتی
بلال شبیر ہادی
No comments:
Post a Comment