یہ تجربہ بھی کروں، یہ بھی غم اٹھاؤں میں
کہ خود کو یاد رکھوں اس کو بھُول جاؤں میں
اسی سے پوچھ کے دیکھوں وہ میرا ہے کہ نہیں
کہ جان بوجھ کے کب تک فریب کھاؤں میں
کبھی تو ہو اسے میری محبتوں کا خیال
کبھی تو ہو کہ اسے کھُل کے یاد آؤں میں
وہ شخص ہے کہ نسیمِ سحر کا جھونکا ہے
بکھر بھی جاؤں تو اس کو گلے لگاؤں میں
وہ سو رہا ہو میری یاد کے شبستاں میں
تو اس کے پاس میں جا کر اسے جگاؤں میں
نگار بانو ناز
No comments:
Post a Comment