مِرے دشمن کو حیرانی بہت ہے
مجھے آخر کیوں آسانی بہت ہے
سمجھ لیتا ہے اپنا ہر کسی کو
مِرے دل میں یہ نادانی بہت ہے
چلو اب چاند پر دنیا بسائیں
زمیں والوں پہ نگرانی بہت ہے
مِری غزلیں کوئی سنتا نہیں اب
مِری غزلوں میں ویرانی بہت ہے
ہے دستار محبت میرے سر پر
مجھے یہ تاجِ سلطانی بہت ہے
بھلانے پر تجھے راضی نہیں اب
مِرے دل کی بھی من مانی بہت ہے
بہت دشوار ہے جینا یہاں پر
کہ مر جانے میں آسانی بہت ہے
عادل راہی
No comments:
Post a Comment