شامِ غم تھی، غم تھے، تنہائی تھی
تیری یاد تھی، ہم تھے، تنہائی تھی
درد میں کھونے کے لیے رونے کےلیے
آنسو بہت ہی کم تھے، تنہائی تھی
دو بول تسلی کے نصیب نہیں ہو
گھیرے درد کے موسم تھے تنہائی تھی
کوئی دامن آنسوؤں کا تھام نہ سکا
آنکھ و رخسار نم تھے تنہائی تھی
رونق میں ویرانی کا سا عالم تھا
لوگ ویسے ہمقدم تھے تنہائی تھی
سلیم امت میں کہیں ایکا نظر نہ آیا
اپنے اپنے قبلے حرم تھے تنہائی تھی
ان کے چاہنے والے ہزاروں ہیں سلیم
یہ سب جھوٹے بھرم تھے تنہائی تھی
سلیم احمد ایوبی
No comments:
Post a Comment