دبے ہوئے ہیں جو وحشتوں میں، ارادے ہر بُت شکن کے دیکھو
طوفانِ اقصٰی کی ہیبتوں میں، شرارے موجِ اُڑن کے دیکھو
یہی کرشمۂ دِینِ حق ہے، یاں حوصلوں کی ہے سر بلندی
نحِیف پنچھی ہیں آفتوں میں، مگر وہ تیور چلن کے دیکھو
ہیں قبلہ اول کے ہر ستوں پر، بشارتوں کے چراغ روشن
رہا ہے مسکن جو انبیاء کا، نظارے ہائے وطن کے دیکھو
سلام ان کی جسارتوں پر، ہتھیلی پر سر لیےکھڑے ہیں
گئے وہ مقتل میں مُسکراتے، جوان دار و رسن کے دیکھو
فُغائیں عرشِ بریں سے ہو کر، پلٹ کے آتی ہیں پھر زمیں پر
جنازے اُجڑے بدن کے دیکھو، وہ بچے ماں کے بطن کے دیکھو
او آئی سی کے جو حکمراں ہیں، کہیں تو ڈھونڈو کہ وہ کہاں ہیں
مُنافقت میں چُھپے ہوئے ہیں، روِیے اہلِ زمن کے دیکھو
ہیں چُپ لیاقت کی اِلتجائیں، قلم کی آہیں بھی بے زباں ہیں
نشانِ گِریہ کہیں نہیں ہے، سلوب اِس کے سُخن کے دیکھو
لیاقت منظور بھٹہ
No comments:
Post a Comment