نہ ساتھی بات کرتے ہیں نہ رہبر بات کرتے ہیں
مُسافر سے فقط رستے کے تیور بات کرتے ہیں
تِری یادوں سے ہم بھی ایسے اکثر بات کرتے ہیں
محبت کرنے والے جیسے چھُپ کر بات کرتے ہیں
تمہارے سامنے کچھ بول دیں ممکن نہیں ہم سے
تصور میں مگر ہم تم سے کھُل کر بات کرتے ہیں
زباں تو مصلحت بر دوش ہے، خاموش رہتی ہے
جو کٹ کر گر پڑیں دھڑ سے وہی سر بات کرتے ہیں
یہ آئینے تو آئینے ⌗ ہیں ان کی بات ہی کتنی
ہمارے ہاتھ آ جائیں تو پتھر🪨 بات کرتے ہیں
کہا کرتی ہے کیا ان سے خموشی دشت و صحرا کی
دِوانوں سے نہ جانے کیا یہ منظر بات کرتے ہیں
زمانہ دیکھتا ہے رشک سے میری طرف ناصح
میری تشنہ لبی سے جب بھی ساغر بات کرتے ہیں
نہیں ہے فرق چھوٹے کا بڑے کا اپنی نظروں میں
کوئی ملتا ہے ہم سے ہم برابر بات کرتے ہیں
جمیل اصحابِ کربل کی عنایت کا تصدق ہے
ہماری پیاس کے آگے سمندر بات کرتے ہیں
جمیل نظام آبادی
No comments:
Post a Comment