ہر نئی صبح نئی شام سے ڈر لگتا ہے
ان بدلتے ہوئے ایّام سے ڈر لگتا ہے
اتنے دھوکے دئیے احباب نے پیہم کہ مجھے
اب تو اس لفظ سے، اس نام سے ڈر لگتا ہے
وعدے کر کے مکُرتا ہے تو چُپ رہتا ہوں
کہ جواباً تِرے الزام سے ڈر لگتا ہے
بے قراری ہی مِلی مجھ کو سکوں کے بدلے
اب مجھے خواہشِ آرام سے ڈر لگتا ہے
صبوحی دہلوی
سید ہدایت علی
No comments:
Post a Comment