Saturday, 2 November 2024

ہر نئی صبح نئی شام سے ڈر لگتا ہے

 ہر نئی صبح نئی شام سے ڈر لگتا ہے

ان بدلتے ہوئے ایّام سے ڈر لگتا ہے

اتنے دھوکے دئیے احباب نے پیہم کہ مجھے

اب تو اس لفظ سے، اس نام سے ڈر لگتا ہے

وعدے کر کے مکُرتا ہے تو چُپ رہتا ہوں

کہ جواباً تِرے الزام سے ڈر لگتا ہے

بے قراری ہی مِلی مجھ کو سکوں کے بدلے

اب مجھے خواہشِ آرام سے ڈر لگتا ہے


صبوحی دہلوی

سید ہدایت علی

No comments:

Post a Comment