سب کو ہی اس در پر تالا دکھتا تھا
مجھ کو کوئی دوڑ کے آتا دکھتا تھا
کرتے تھے وہ دعائیں اندھے ہونے کی
پیاسوں کو زنداں سے دریا دکھتا تھا
وہ تھا ایک کنیز کے کمرے کا درپن
اس میں دیکھنے والا روتا دکھتا تھا
میں نے ان آنکھوں میں دنیا دیکھی تھی
اور دنیا کو جانے کیا کیا دکھتا تھا
اڑتا تھا جی بھر کے سویرا ہوتے ہی
اک پنچھی کو خواب میں پنجرا دکھتا تھا
لوٹی تھی وہ ایک وڈیرے کے گھر سے
اس کو ہر جھولے میں پھندا دکھتا تھا
کچھ کو دریا بوند کے جیسا تھا یاسر
کچھ کو بس اک بوند میں دریا دکھتا تھا
یاسر انعام
No comments:
Post a Comment