Friday, 1 November 2024

سب کو ہی اس در پر تالا دکھتا تھا

 سب کو ہی اس در پر تالا دکھتا تھا

مجھ کو کوئی دوڑ کے آتا دکھتا تھا

کرتے تھے وہ دعائیں اندھے ہونے کی

پیاسوں کو زنداں سے دریا دکھتا تھا

وہ تھا ایک کنیز کے کمرے کا درپن

اس میں دیکھنے والا روتا دکھتا تھا

میں نے ان آنکھوں میں دنیا دیکھی تھی

اور دنیا کو جانے کیا کیا دکھتا تھا

اڑتا تھا جی بھر کے سویرا ہوتے ہی

اک پنچھی کو خواب میں پنجرا دکھتا تھا

لوٹی تھی وہ ایک وڈیرے کے گھر سے

اس کو ہر جھولے میں پھندا دکھتا تھا

کچھ کو دریا بوند کے جیسا تھا یاسر

کچھ کو بس اک بوند میں دریا دکھتا تھا


یاسر انعام

No comments:

Post a Comment