صحرا کی دُھوپ جھیل، سمندر بھی آئے گا
کانٹے چُبھے تو کوچۂ دلبر بھی آئے گا
اے دوست مُسکرا کے مجھے ڈُوبتے نہ دیکھ
یہ سیلِ بے لگام تِرے گھر بھی آئے گا
اس درجہ روشنی سے شناسائی کس لیے
سُورج ڈھلا تو رات کا منظر بھی آئے گا
ان موسموں میں پیڑ کا سایہ نہ مانگیے
آندھی چلی تو شاخ سے پتھر بھی آئے گا
کب تک کنور اُٹھا کے چلیں گے وہ ایڑیاں
پانی چڑھا تو سر کے برابر بھی آئے گا
اعجاز کنور راجا
No comments:
Post a Comment