مرا خیال ہے یہ المیہ بھی ہو جائے
جنون تیری گلی سے بڑا بھی ہو جائے
ضمیر اپنے لیے بوجھ ڈھونڈ لیتا ہے
بدن کا وزن بدن سے جدا بھی ہو جائے
یہ کیا کہ چلتے رہیں راہگز پہ چلتے رہیں
سفر کے بیچ کہیں حادثہ بھی ہو جائے
دیے جلاتے ہو تم کس لیے علی عارف
یہ شب نہیں کہ اندھیرا فنا بھی ہو جائے
علی عارف
No comments:
Post a Comment