Saturday 19 November 2016

رات ہے رات تو بس مرد خوش اوقات کی رات

رات ہے رات تو بس مردِ خوش اوقات کی رات
گریۂ شوق کی یا ذوقِ مناجات کی رات
ہم گدایانِ در پیر خرابات کی رات
ہے شبِ قدر سے دعویِٰ مساوات کی رات
گریۂ غم ہے کہ ساون کی جھڑی تا دم صبح
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات
رات دن ہوتی ہے اللہ رے تیری قدرت
عید کا روز ہے یاروں کی ملاقات کی رات
شبِ دیجور ہے یا ظلمت ایامِ فراق
کیا لکھی تھی مری تقدیر میں دن رات کی رات
سخت دشوار تھی معشوق سے عاشق کی شناخت
وصل کی رات نہ تھی، تھی وہ طلسمات کی رات
رات خاکِ کفِ پا اس کے سگِ در کی ملی
اور کیا اس سے سوا ہو گی مباہات کی رات
بُعد تھا قرب، جدائی تھی اگر عین وصال
یاد ہے اے کششِ دل وہ کرامات کی رات
وقت بے وقت کے جھگڑے ہیں وجود اور عدم
دن ستاروں کی فنا، نفی ہے ذرات کی رات
کچھ ہمیں سمجھیں گے یہ روزِ قیامت والے
جس طرح کٹتی ہے امید ملاقات کی رات
پھر نہ سجدے سے اٹھ کر کے شبِ وصل کی قدر
کہ شبِ قدر تھی طاعات و عبادات کی رات
صبح ہوتی ہے کوئی دم میں وہ آئے بھی تو کیا
نہ کسی کام کی رات اب نہ کسی بات کی رات
تندئ بادۂ جلوہ میں ہے روزِ محشر
ہم گدایانِ درِ پیر خرابات کی رات
پھر وہی طرف چمن ہو، وہی صحبت وہی دور
پھر وہی ہم ہوں، وہی تم ، وہی برسات کی رات
رات ساتھ آئے گی، آنے دو، جو وہ دن کو بھی آئیں
زلف کی زلف ہے، وہ زلفِ سیہ رات کی رات
اب تو پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسیؔ
ہے شبِ گور بھی اس گل کی ملاقات کی رات

آسی غازی پوری

No comments:

Post a Comment